Hazrat Hamza Raziallahuanhu Ne Madad Farmayi

 (۲)  حضرتِ حمزہ رضی اللہ عنہ نے مدد فرمائی

حضرت شیخ احمد دَمْیَاطِی علیہ رحمۃُ اللہِ الہادیفرماتے ہیں کہ میں نے اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ ایک قحط زدہ سال میں مصر سے خریدے گئے دو اونٹوں پر سوار ہو کر سفرِ حج اختیار کیا۔ حج سے فارغ ہو کر مدینہ طَیِّبَہزَ ادَھَااللہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْماً   کا رُخ کیا ،وہاں پہنچے تو اونٹ جان سے گزرگئے ۔ہم خالی جیب ہوچکے تھے، نہ اونٹ خرید سکتے تھے اور نہ ہی کرائے کی سواری لینے کے قابل رہے تھے۔میں اس تنگ دستی میں حضرت سیدناشیخ صفی الدین قَشّاشی قُدِّسَ سرُّہُ الرَّباّنیکی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں ساری کیفیت عَرْض کردی، انہیں یہ بھی بتایا کہ پریشانی کے حل تک مدینہ طیبہ میں ہی ٹھہر جانا چاہتا ہوں ، وہ کچھ دیر خاموش رہے، پھر فرمانے لگے: آپ ابھی حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالٰی
 علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے چچا جان حضرت سیدنا حمزہ  رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قبرِ اَنور پر حاضری دیں ، جتنا ممکن ہوسکے قرآن پڑھیں اور پھر اوّل سے آخر تک انہیں اپنا حال سنائیں ۔میں نے تعمیلِ ارشاد میں چاشت کے وقت ہی حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مَزار شریف پر حاضری دی اور شیخ گرامی کے حکم کے مطابق قرآنِ حکیم پڑھ کر اپنا حال سنا ڈالا۔ ظہر سے پہلے واپس ہوااور بابِ رحمت میں طہارت خانہ سے وضو کرکے مسجد شریف میں داخل ہوا تو وہاں والدہ محترمہ کو موجود پایا، فرمانے لگیں : ابھی تمہیں ایک آدمی پوچھ رہا تھا۔ میں نے عرض کی: اب وہ کہاں ہے؟ کہنے لگیں :حرمِ نبوی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیچھے جاؤ۔میں اس طرف گیا تو ایک پُر ہیبت شخصیت کے مالک سفید داڑھی والے بُزرگ سے ملاقات ہوئی ۔ مجھے دیکھتے ہی فرمانے لگے:’’ شیخ احمد مرحبا! ‘‘ میں نے آگے بڑھ کر ان کے ہاتھ چوم لئے۔فرمایا: مصر چلے جاؤ۔ میں نے عرض کی: آقا ! کس کے ساتھ؟ فرمانے لگے: چلومیں کسی آدمی سے تمہارے کرائے کی بات کرادیتا ہوں ۔ میں ان کے ساتھ چل پڑا، وہ مجھے مدینہ طیبہ میں مصری حاجیوں کے  کیمپ میں لے گئے۔ وہ ایک خیمے میں داخل ہوئے تو پیچھے پیچھے میں بھی داخل ہوگیا، انہوں نے خیمے کے مالک کو سلام کیا ،وہ انہیں دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوااور آپ کے ہاتھ چوم کر بڑے ادب واِحترام کے ساتھ بٹھایا۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس سے فرمایا: شیخ احمد اور ان کی والدہ کومصر پہنچانا ہے۔وہ مصری تیار ہوگیا تو آپ  رضی اللہ تعالٰی عنہنے فرمایا: کتنے پیسے لو گے؟ اس نے عرض کی: جتنے آپ کی مرضی

 ہوگی۔ فرمایا: اتنے اتنے لے لینا۔اس نے بات مان لی اورآپ رضی اللہ تعالٰی عنہنے اسی وقت اپنے پاس سے کرائے کا زیادہ حصہ ادا کردیا۔پھر مجھے فرمانے لگے: شیخ احمد! اپنی والدہ اور سامان کو یہاں لے آؤ ۔میں والدہ ماجدہ اور سامان کے ساتھ واپس آیا تو اس مصری کو فرمانے لگے: باقی کرایہ تجھے مصر پہنچ کر مل جائے گا۔اس کے بعد آپ رضی اللہ تعالٰی عنہنے سورۂ فاتحہ پڑھی اور اسے ہمارے ساتھ اچھاسلوک کرنے کی تاکید کی ، پھر اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں بھی آپ رضی اللہ تعالٰی عنہکے ساتھ چل پڑا۔ جب ہم مسجد شریف پہنچے توفرمایا: تم مجھ سے پہلے اندر چلے جاؤ،لہٰذا میں مسجد میں داخل ہوااور ان کا انتظار کرنے لگا۔جب نماز کا وقت ہوگیاتو میں نے ان کو ڈھونڈالیکن وہ نظر نہ آئے۔بعدِ نماز بھی میں نے بار بار تلاش کیا مگر نہ ملے۔پھرمیں اس آدمی کے پاس پہنچا جسے وہ کرایہ دے کرآئے تھے۔جب میں نے اس سے آپ کے بارے میں دریافت کیاتو وہ کہنے لگا: میں تو انہیں نہیں پہچانتا اور آج سے پہلے انہیں دیکھا بھی نہیں تھا ،مگر جب وہ میرے پاس تشریف لائے تھے تو مجھ پر ایسا خوف اور اتنی ہیبت طاری ہوئی جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی ۔میں لَوٹ آیااورانہیں دیگر مقامات پر بہت تلاش کیا لیکن وہ نہ مل سکے۔ جب میں حضرت شیخ صفی الدین احمد قَشّاشی قُدِّسَ سرُّہُ الرَّباّنیکی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کو ساری بات بتائی توفرمانے لگے:وہ سیِّدُ الشُہَداء حضرت سیدنا حمزہ  رضی اللہ تعالٰی عنہکی رُوحِ پاک ہی تو تھی جو جسمانی شکل میں تمہارے سامنے آئی تھی ۔پھر میں اس آدمی کے پاس پہنچا جس کے ساتھ مصر جانا تھا اور باقی حاجیوں کے ساتھ سفر پر روانہ ہوگیا ۔

 اس نے دورانِ سفر محبت و اِکرام اور حسنِ اخلاق کا ایسا مظاہرہ کیا کہ میں حیران رہ گیا ۔ یہ سب کچھ حضرتِ سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی برکت تھی،اللہ عَزَّ وَجَلَّان کے وسیلے سے ہمیں نفع عطا فرمائے۔ اَ لْحَمْدُ للّٰہ عَلی ذٰلک (جامع کرامات اولیاء،ج۱،ص۱۳۳ )
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اس حکایت سے جہاں رسول اکرم نورمجسم  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چچاجان  سیِّدُ الشُہَداء حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہکی شان معلوم ہوئی وہیں یہ درس بھی ملا کہ مزارات مبارکہ پر جاکر تلاوتِ قرآن کرنا بہت سارے ثواب کے ساتھ ساتھ صاحبِ مزار کی خوشی اور ان کی توجہ حاصل کرنے کا ذریعہ بھی ہے ۔ اس لئے ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ مزاراتِ اولیاء پر حاضری کے موقع پر اِدھر اُدھر کے فضول اورغیر شرعی کاموں میں مشغول ہونے کے بجائے جتنا ممکن ہو سکے قرآنِ پاک کی تلاوت کی سعادت حاصل کریں ۔یقینا تلاوتِ قرآن کی بڑی فضیلت ہے ،چُنانچِہ خاتَمُ الْمُرْسَلین، شفیعُ الْمُذْنِبیْن،رَحمَۃٌ لِّلْعٰلمین صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ دِلنشین ہے:’’جو شخص کتابُ اﷲ کا ایک حَرف پڑھے گا، اُس کو ایک نیکی ملے گی جو دس کے برابر ہوگی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ الٓـمّٓ ایک حَرف ہے، بلکہ اَلِف ایک حَرف ، لام  ایک حَرف اور میم ایک حَرف ہے۔‘‘ (سُنَنُ التِّرْمِذِی ج۴ ص۴۱۷حدیث ۲۹۱۹)
تلاوت کی توفیق دیدے الٰہی
گناہوں کی ہو دُور دل سے سیاہی
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد


Post a Comment

0 Comments