خواجہ معین الدین کی انسان دوستی اورغریب پروری
مذہب اسلام نے اس دنیا کی ساری مخلوق کو اللہ کا کنبہ قرار دیا ہے اور اس کے نزدیک پوری نسل انسانی ہم سب کے جد اعلی حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہے۔
ایک ہی انسان سے پوری دنیا کو سجایا اور اپنے لطف و کرم سے سبھی انسانوں کو رحم و مروت، جذبات و احساسات اور ہم دردی و غم گساری کے اثرات بھی مرحمت فرمادیا ہے، تاکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ اپنے دکھ سکھ کی گھڑیاں بانٹ سکے اورمصاب و الاٸم کے وقت انسانی دوستی کا اظہار بھی کرے۔
محسن انسانیت حضرت محمد مصطفیﷺ کے نقش قدم پر چلتے ہوے تزکیہ و احسان اور تصوف و طریقت کی علم بردار وہ ذات بابرکات جنہیں تاریخ عالم صوفیہ و مشائخ کے نام سے موسوم کرتی ہے۔
اگر ان کے درخشندہ زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم پر یہ حقیقت آشکارا ہوجاتی ہے کہ انہوں نے اپنے اخلاق و کردار اور خدمت خلق کے ایسے اعلی نمونے چھوڑے ہیں کہ خوش طبعی اورصحیح طریقوں سے عمل پیرا ہو تو آج بھی بیمار معاشرہ کو شفایابی مل سکتی ہے اور درماندہ حال کو کام یابی کی روشنی مل سکتی ہے۔
ہمارے اس وطن عزیز کےاندر صوفیہ کرام کے درمیان ہندالولی عطاے رسول حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی اجمیری کی ذات گرامی ایک منفرد اور نمایاں حیثیت کی حامل ہے۔
سرزمین ہند پہ آپ سرکردہ اولیا اور سرخیل اصفیا میں سے ایک ہیں۔ آپ کی شان غریب نوازی سے اس ملک کا ہرگوشہ مہکتا ہے
یہاں کا بچہ بچہ آپ کا احسان مند ہے۔ ایک مقام پرحضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی چشتی دہلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ایک بار میں نے اپنے مرشد برحق حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی کا یہ فرمان سنا وہ اپنے پیر و مرشد حضرت خواجہ ہارونی چشتی کے یہ گراں قدر کلمات نقل فرما رہے تھے۔
اگرکسی شخص میں تین خصلتیں پائی جائیں تو سمجھ لو کہ وہ اللہ تعالی کامحبوب بندہ ہے۔ سخاوت و شفقت اور تواضع۔ دریا جیسی سخاوت، آفتاب جیسی شفقت اور زمین جیسی تواضع”۔(دلیل العارفین)
خدمت خلق اور حاجت روائی کے بارے میں سلطان ہند خواجہ معین الدین چشتی اپنے زبان حق سے ایسی بات بیان کرتے ہیں جس سے درویشی کے مضمرات و اسرارکی گڑہیں کھلتے ہیں
۔”درویشی اس بات کا نام ہے کہ اس کے پاس جو آے اسے محروم نہ کیا جاے۔ اگر بھوکا ہے تو کھانا کھلایا جاے ۔ننگا ہے تو نفیس کپڑا پہنایا جاے۔
کسی شکل میں اسے خالی نہیں واپس کرنا چاہیے، اس کا حال پوچھ کر اس کی دل جوئی کرنی چاہیے۔(دلیل العارفین)
آپ کے اندر عہد طفولیت ہی سے خدمت خلق، محبت وہم دردی، بندہ نوازی اور حاجت روائی کا جذبہ موجزن تھا۔
زمانہ شیر خوارگی میں بھی آپ کی نرالی شان تھی۔ مورخین تحریر فرماتے ہیں کہ دودھ پینے کے زمانے میں بھی جود و سخا کا یہ عالم تھا کہ جب کوئی عورت اپنے بھوکے بچے کے ساتھ آپ کے یہاں آئی اور دودھ کے لیے اس کا بچہ بے قرار ہونے لگتا تو آپ فوراً اپنی مادر مہربان کو اشارہ فرما دیتے
جس کا مطلب یہ ہوتا کہ آپ اپنا دودھ اس بچے کو پلائیں۔آپ کی والدہ محترمہ یہ اشارہ سمجھ کر اس بچے کو دودھ پلا دیتیں۔ وہ بچہ جب دودھ سے شکم سیر ہو جاتا تو آپ مسرت و شادمانی کا اظہار اپنے رخ زیبا پر ظاہر فرماتے۔
آپ کے بچپن ہی کا ایک واقعہ یہ بھی ہے پندرہ سال کی عمر میں جب ایک بزرگ شیخ ابراہیم قندوزی کے فیضان اور نگاہ کیمیا اثر سے حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے اندر روحانی انقلاب آیا۔
تو آپ نے اپنا باغ اور پن چکی جو آپ کا ذریعہ معاش تھا اسے بھی فروخت کردیا اور باغ و پن چکی سے حاصل شدہ ساری رقم غربا و فقرا اور مساکین و محتاجوں کے درمیان تقسیم کردی۔ ان سارے واقعہ سے بخوبی اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ حضرت معین الدین چشتی کی فیاضی اور ہم دردی کے جو باب ہے وہ نہایت نصیحت آموز اور ایک کام یاب شخص کے لیے سنگ میل ہے۔
انسانی دوستی اورغریب پروری کاجلوہ آپ کی ان تعلیمات وہدایات میں بھی بخوبی ملتا ہے۔
مصیبت زدہ لوگوں کی فریاد سننا،ان کا ساتھ دینا، حاجت مندوں کی ضرورت پوری کرنا، بھوکوں کو کھانا کھلانا، اسیروں کو رہاٸی دلانا یہ سب باتیں اللہ کے حضور عالی شان مقام و مرتبہ رکھتی ہیں۔
اپنے لیے دنیاوی مال و متاع کے سلسلہ میں حضرت خواجہ غریب نواز و دیگر صوفیہ و مشائخ کا جو مسلک تھا وہ شیخ الاسلام حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر چشتی خلیفہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی چشتی دہلوی کے اس خیال سے ظاہر ہو جاتا ہے۔
زکوۃ تین طرح کی ہوتی ہے
زکوۃ شریعت
زکوۃ طریقت
زکوۃ حقيقت
زکوۃ شریعت یہ ہے کہ دو سو درہم اپنے پاس رکھا جاے اور بقیہ سب خدا کی راہ میں خرچ کردیا جاے اور زکو حقيقت یہ ہے کہ سب کا سب راہ خدا میں دے دیا جاے اور اپنے پاس اللہ و رسول کےسوا کچھ بھی نہ رکھا جاے۔(سیرالاقطاب)
حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی چشتی دہلوی اپنے مرشد طریقت وحقیقت عطا رسول سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے بارے میں اپنا یہ تجربہ و مشاہدہ بیان کرتے ہیں کہ ;میں نے مدت تک آپ کی خدمت کی ،مگر کسی سال وفقیر کو کبھی آپ کے در سے محروم جاتے نہیں دیکھا۔(مسالک السالکین)
از قلم : محمد آفتاب عالم مصباحی
سرسی،نان پورضلع سیتامڑھی بہار
0 Comments