حضرت صدر الدین احمد سیوستانی سے ملاقات کا احوال
حضرت خواجہ معین الدین چشتی فرماتے ہیں میں سیوستان میں مرشد پاک حضرت خواجہ عثمان ہارونی کے ساتھ مسافرت میں تھا۔ ایک روز ہم ایک صومعہ میں پہنچے۔ جہاں حضرت صدر الدین احمد سیوستانی رہتے تھے۔ وہ یہاں عبادت میں مشغول رہتے تھے میں کئی روز تک ان کی خدمت میں رہا۔ ان کی حالت ایسی تھی کہ کوئی شخص ان کے پاس سے خالی ہاتھ نہ جاتا تھا۔ آپ سے کوئی نے لا کر دے دیتے اور فرماتے۔
”میرے حق میں دعا کرو میں ایمان کی سلامتی کے ساتھ جاؤں‘
حضرت خواجہ معین الدین چشتی فرماتے ہیں حضرت صدر الدین احمدسیوستانی جس وقت قبر کی سختی اور موت کا حال سنتے تھے تو تھر تھر کانپنے لگ جاتے تھے۔ ایک ہفتہ تک متواتر پھوٹ پھوٹ کر اس قدر روتے تھے کہ دیکھنے والے بھی رونے لگ جاتے تھے۔ میں جس وقت حاضر خدمت ہوا آپ رورہے تھے۔ جب ڈرا سکون ہوا تو میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا۔
اے عزیز! جسے موت آنے والی ہیں جس کا حریف ملک الموت ہو اسے سونے اور چننے سے کیا کام ۔اگر تمہیں ان لوگوں کا حال معلوم ہو جائے جو زیر زمین سوتے ہیں اور بچھوؤں سے بھری ہوئی کوٹھری میں محبوس ہیں تو تم اس طرح پگھل جاؤ جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔“
حضرت خواجہ معین الدین چشتی فرماتے ہیں پھر حضرت صدر الدین احمد سیوستانی نے مجھ سے فرمایا میں تمہیں تیس برس بیشتر کا واقعہ سناتا ہوں۔ بصرہ کے ایک قبرستان میں ایک بزرگ میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے ہمارے قریب ایک قبر میں مردے کو عذاب ہو رہا تھا یہ حال دیکھ کر وہ بزرگ نعرہ مار کر مر گئے ۔ میں نے اٹھانا چاہا تو ان کی روح قالب سے پرواز کر چکی تھی اور پھر تھوڑی دیر بعد ان کا جسم پانی بن کر بہہ گیا۔
0 Comments