500 Deenaar Mil Gaye

(۱)  500دینار مل گئے

حُجَّۃُ الْاِسلام حضرتِ سیِّدُنا امام محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہِ الوالی نَقْل کرتے ہیں کہ مکۂ مکّرمہ کے ایک شافِعی مُجاور کا کہنا ہے: مِصْر میں ایک غریب شخص کے یہاں بچّے کی وِلادت ہوئی اُس نے ایک سماجی کارکُن سے رابِطہ کیا۔ وہ بچے کے والِد کو لیکر کئی لوگوں سے ملا مگر کسی نے مالی اِمداد نہ کی۔ آخِر کار ایک بُزرگ کے  مزار شریف پر حاضِری دی، جہاں اُس سماجی کارکن نے کچھ اِس طرح فریاد کی: ’’یا سیِّدی!اللہ عَزَّ وَجَلَّآپ پر رحم فرمائے، آپ اپنی ظاہِری زندگی میں بَہُت کچھ دیا کرتے تھے، آج کئی لوگوں سے بچے کیلئے مانگا مگر کسی نے کچھ نہ دیا۔‘‘ یہ کہنے کے بعد اُس سماجی کارکن نے ذاتی طور پر آدھا دِینار بچے کے والِد کواُدھار پیش کرتے ہوئے کہا :’’ جب کبھی آپ کے پاس پیسوں کی ترکیب بن جائے مجھے لَوٹا دینا۔‘‘ دونوں اپنے اپنے راستے ہو لئے۔ سماجی کارکن کو رات خواب میں صاحبِ مزار کادیدار ہوا ، فرمایا: آپ نے مجھ سے جو کہا وہ میں نے سُن لیا تھا مگر اُس وقت جواب دینے کی اِجازت نہ تھی ، میرے گھر والوں سے جا کر کہئے کہ وہ انگیٹھی ( اَنْ۔گی۔ٹھی) کے نیچے کی جگہ کھودیں ، ایک مشکیزہ نکلے گا اُس میں 500 دِینار ہو ں گے وہ ساری رقم بچے کے والِد کو پیش کردیجئے۔چُنانچِہ وہ صاحِبِ مزار کے گھر والوں کے پاس پہنچا اور سارا ماجرا کہہ سنایا۔ ان لوگوں نے نشاندہی کے مطابِق جگہ کھو دی اور 500 دِینار نکال کر حاضِر کر دیئے ۔ سماجی کارکن نے کہا: یہ سب دینار آپ ہی کے ہیں ، میرے خواب کا کیا اِعتِبار! وہ
بولے ،جب ہمارے بُزُرگ دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی سخاوت کرتے ہیں توہم کیوں پیچھے ہٹیں ! چُنانچِہ ان لوگوں نے بااِ صرار وہ دِینار اُس سماجی کا ر کُن کو دیئے اور اس نے جا کر اُس بچے کے والِد کو پیش کر دیئے اور سارا واقِعہ سنایا۔ اُس غریب شخص نے آدھے دِینار سے قرضہ اُتارا اور آدھا دِینار اپنے پاس رکھتے ہوئے کہا،’’ مجھے یِہی کافی ہے۔‘‘ باقی سب اُسی سماجی کارکُن کو دیتے ہوئے کہا، بقِیّہ تمام دینار غریب و نادار لوگوں میں تقسیم فرما دیجئے۔ راوِی کا بیان ہے : مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ان سب میں کون زیادہ سخی ہے! (  اِحیائُ عُلوم الدین ج۳   ص۳۰۹) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔  امین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
خالی کبھی پھیرا ہی نہیں اپنے گدا کو اے سائلومانگو تو ذرا ہم ہاتھ بڑھا کر
خود اپنے بھکاری کی بھرا کرتے ہیں جھولی خود کہتے ہیں یا ربّ ! مِرے منگتا کا بھلا کر
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
اولیائے کرام بعدِ وفات بھی دستگیری کرتے ہیں 
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اولیاءُ اللہ  رَحِمَہُمُ اللہُ تعالٰی اپنے ربِّ کائنات  عَزَّوَجَلَّکی عنایات سے مَزارات میں حیات ہوتے ہیں ، آنے جانے والوں کی بات سنتے ہیں ،ہدایت و اِعانت کرتے ہیں اور اپنے گھروں کے معاملات کی بھی خبر رکھتے ہیں ، جبھی تو صاحبِ مزار بُزُرگ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ   نے خواب میں جا کر اُس سماجی کارکُن کی رہنُمائی 

فرمائی اور اُس نومولود(یعنی پیداہونے والے چھوٹے بچے) کے غریب باپ کی دستگیری (دَسْتْ۔گِیری) اور مالی اِمداد کی۔مذکورہ حکایت میں راہِ خدا میں خَرْچ کرنے کی بھی ترغیب ہے اوراس کی بڑی فضیلت ہے!چنانچہ حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:’’ جواللہ عَزَّ وَجَلَّ  کی راہ میں کچھ خرچ کرے اس کے لئے سات سوگُنا ثواب لکھا جاتا ہے ۔‘‘ (ترمذی ،کتا ب فضائل الجہاد،الحدیث ۱۶۳۱،ج۳ ،ص ۲۳۳)پیارے اسلامی بھائیو! ضروری نہیں کہ بہت سا رامال پاس ہوتو ہی خرچ کیا جائے بلکہ اِخلاص کے ساتھ ایک روپیہ خَرْچ کرکے بھی ثواب کمایا جاسکتا ہے ۔راہِ خدا میں خرچ کرنے کی بہت سی صورتیں ہیں مثلاً:کسی بھوکے کو کھانا کھلادینا، غریب بیمار کو دوائی دِلا دینا، پانی کی سبیل بنوا دینا، دینی کُتُب کی لائبریری بنوادینا، لنگرِ رسائل (یعنی دینی کتب تقسیم ) کرنااورجامعات ومساجد کی مالی خدمت کرناوغیرھا۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
مزاراتِ اولیاء کی حاضری باعثِ برکت ہے
اولیاءے کرام  رَحِمَہُمُ اللہُ المبینکے مزار اتِ طیِّبات پر حاضِری دینے اور اُن سے فیض لینے کا بُزُرگوں کا معمول رہا ہے، چنانچہ اپنے زمانے میں حَنابِلہ (یعنی فقہ حنبلی کے پیروکاروں )کے شیخ امام خلّال رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ   فرماتے ہیں :  مجھے جب بھی کوئی معاملہ درپیش ہوتاہے ،میں امام موسیٰ کاظم بن جعفر صادق (رضی اللہ تعالٰی عنہما  )کے مزار پر
 حاضر ہوکر آپ کا وسیلہ پیش کرتاہوں ۔اللہ تعالیٰ میری مشکل کو آسان کر کے مجھے میری مراد عطا فرمادیتاہے ۔ (تاریخ بغداد، ج ۱ ص ۱۳۳)جبکہ کروڑوں شافِعِیوں کے پیشوا حضرتِ سیِّدُنا امامِ شافِعی رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں : مجھے جب کوئی حاجت پیش آتی ہے ، دورَکَعْت نَماز ادا کرکے امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ کے مزارِ پُر انوار پر جاکر دعا مانگتا ہوں ،اللہ عَزَّ وَجَلَّ میری حاجت پوری کردیتا ہے۔(الخیرات الحِسان ص ۲۳۰ ،مدینہ پبلشنگ کراچی) اللہ     عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔  امین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

مدنی پھول

(ولیُّ اللہ کے مزار شریف یا)کسی بھی مسلمان کی قَبْر کی زیارت کو جانا چاہے تو مُستَحَب یہ ہے کہ پہلے اپنے مکان پر (غیر مکروہ وقت میں ) دو رَکْعَت نَفْل پڑھے، ہر رَکْعَت میں سُورَۃُ الْفَاتِحَۃِ کے بعد ایک بار اٰیَۃُ الْکُرْسِیاور تین بار سُورَۃُ الْاِخْلَاصپڑھے اور اس نَماز کا ثواب صاحبِ قَبْرکو پہنچائے، اللہ تعالٰی اُس فوت شدہ بندے کی  قَبْر میں نور پیدا کرے گا اور اِس(ثوا ب پہنچانے والے) شخص کو بَہُت زیادہ ثواب عطا فرمائے گا۔(فتاوی عالمگیری ج۵ص۳۵۰  دارالفکربیروت)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد



Post a Comment

0 Comments