برگد کے درخت سے کھجوریں اُتار لیں: Bargad Ke Darkht Se Khajoor Utar Len

برگد کے درخت سے کھجوریں اُتار لیں:


    حضرت سیِّدُنا عبدالرحمن قرشی علیہ رحمۃاللہ الولی فرماتے ہیں: ایک بارمیں حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃاللہ الاعظم کے ساتھ سفر پر روانہ ہوا۔ہم حجاز کے راستے پر تین دن تک سفر کرتے رہے اورہمیں کھانے پینے کو کچھ نہ ملا۔ میں بھوک سے بے چین ہو گیا۔ میرے چہرے پر بھوک کے تاثرات دیکھ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیٹھ گئے۔ میں بھی پہلو میں بیٹھ گیا۔ اچانک ایک تازہ روٹی میری گود میں گری ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اسے اٹھایا اور مجھے فرمایا: ''کھاؤ۔'' میں نے آدھی روٹی کھائی اور خوب سیر ہو گیااور پھر سفر شروع کر دیا۔ دورانِ سفر ہم ایک قافلے کے پاس پہنچے۔ شیر نے ان کا راستہ روک رکھا تھا۔ حضرت سیِّدُناابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ الاعظم آگے بڑھے اور شیر سے فرمایا:''اے شیر!اگر ہمارے متعلق تجھے کوئی حکم ہے تو اس کو کر گزر، ورنہ یہاں سے چلا جا۔'' یہ سنتے ہی شیر پیچھے مڑ کر بھاگ گیا۔قافلے والے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کرعرض گزار ہو ئے: ''یا سیدی! ہمیں
کوئی دعا ارشاد فرمائیے جو ہم پڑھا کریں کیونکہ ہم سفر میں بہت خوف محسوس کرتے ہیں۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انہیں یہ دعا ارشاد فرمائی: ''اَللّٰھُمَّ احْرُسْنَا بِعَیْنَیْکَ الَّتِیْ لَا تَنَامُ وَاکْنُفْنَا بِکَنْفِکَ الَّذِیْ لَا یُضَامُ وَارْحَمْنَا بِقُدْرَتِکَ عَلَیْنَا لَا نُھْلِکْ وَاَنْتَ رَجَآؤُنَا یعنی اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! اپنی نظرِ رحمت سے ہماری حفاظت فرما جو کبھی سوتی نہیں اور ہمیں اپنے سایۂ رحمت کی پناہ میں رکھ کہ جس پر ذرہ برابر ظلم نہیں کیا جاسکتا اور ہم پر اپنی قدرت کے شایانِ شان رحم وکرم فرماکہ ہم ہلاک نہ ہوں، ہماری اُمیدوں کا مرکز ومحور تیری ہی ذات ہے۔''
    حضرت سیِّدُنا عبدالرحمن علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:''کچھ عرصے بعدمیری اہلِ قافلہ میں سے ایک شخص سے ملاقات ہو ئی تو اس نے مجھے بتایا: '' اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! جب سے حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃاللہ الاعظم نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے ہم اسے پڑھتے ہیں تو کوئی درندہ، چور اور خوفزدہ کرنے والی چیز ہمارے قریب نہیں آتی۔''
    حضرت سیِّدُنا عبدالرحمن علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:''پھر وہ شخص دریائی سفر میں ہمارے ساتھ کشتی پرسوار ہو گیا۔ اچانک تیز ہوا چل پڑی،پانی کی موجیں بلند ہونا شروع ہو گئیں، کشتی ڈَولنے لگی اورہمیں ڈوبنے کا خوف لاحق ہوگیا۔لوگ رونے دھونے اور آہ و بُکا کرنے لگے۔ تو اس شخص نے کہا: ''اے لوگو! ہمارے ساتھ اس کشتی میں ایک پرہیز گار شخص موجود ہے، اوراُس میں فلاں فلاں خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ آؤ !اس سے دعا کروائیں ۔'' چنانچہ،ہم حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن ادہم رحمۃاللہ علیہ الاعظم کے پاس حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کشتی کے ایک کونے میں چادر سے سر ڈھانپے لیٹے ہوئے ہیں۔ہم نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو بیدار کیا اور عرض کی :''حضور! دیکھئے تو سہی، لوگ کس قدر مشکل میں ہیں۔'' آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنا سر اٹھایا اورعرض کی: ''یااللہ عَزَّوَجَلَّ ! تو نے ہمیں اپنی قدرت دکھا دی، اب اپنی مہربانی بھی دکھادے ۔'' ابھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بات پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ ہوا تھم گئی، موجیں پُر سکون ہو گئیں اور کشتی اپنی معمول کی رفتار سے چلنے لگی ۔''
    حضرت سیِّدُناعبدالرحمن علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:''جب ہم کشتی سے اُترے تو چند دن پیدل چلتے رہے۔ میں بھوک کی شدت سے مرنے کے قریب ہو گیاتو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے بھوک کی شکایت کی ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک تھیلا لیا اور برگد کے درخت پر چڑھ کر تھیلا بھر لیا۔پھر جب نیچے آئے تو وہ خوبصورت کھجوریں تھیں ۔میں نے ایسی لذیذ کھجوریں پہلے کبھی نہ کھائی تھیں۔ رات کے سفر میں مجھے پیاس لگی تو میں نے پھر عرض کی۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ''پیؤ۔''میں نے دیکھا کہ ایک ڈول ہوا میں لٹکا ہو ا تھا۔ اس میں ایسا پانی تھا کہ جسے پی کر میں نہ صرف اس وقت سیر اب ہو ا بلکہ اس کے بعد شدید گرمیوں میں روزہ رکھتا تو مجھے کوئی بھوک پیاس نہ لگتی۔'' اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے چنے ہوئے بندے ہیں۔
    سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ !کیا شان ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اپنے دل میں محبوبِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی کے لئے کوئی جگہ نہ چھوڑی، اللہ عَزَّوَجَل کے خوف سے اپنے رخساروں پر آنسو بہائے اور اپنی سانسوں کو حسرتوں کے ساتھ ملا دیا اور بارگاہِ ربُّ
العزّت میں یوں عرض گزار ہوئے: ''اے وہ ذات ! صفات جس کا احاطہ نہیں کرسکتیں! آفات کے ظلم سے ہماری حفاظت فرما۔''
    اگرتم اُنہیں دیکھو گے توپاؤ گے کہ انتہائی محبت نے اُنہیں تراش دیا ہے اور سوزِشِ عشق نے اُنہیں کمزور و نڈھال کر دیا ہے مگر اُنہوں نے کسی تکلیف یا نقصان کی شکایت نہ کی۔ اُن کا محبوبِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ اُن سے سر گوشی کرتاہے اور سحری کی پُرکیف گھڑیوں میں اُن کا خیر مقدَم کرتا ہے۔ وہ رات کے گھوڑے پر سوار ہو کر (معرفت کے میدان میں) چل پڑتے ہیں اور صبح کو رات کے سفر کی تعریف کرتے ہیں۔

وَصَلَّی اللہ عَلٰی سیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِہٖ وَ صَحْبِہٖ اَجْمَعِیْن

Post a Comment

0 Comments