(۹) اندھے کو آنکھیں مل گئیں
دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ 26 صفحات پر مشتمل رسالے ’’خوفناک جادوگر ‘‘کے صفحہ 19پرشیخِ طریقت ،امیرِ اہلسنّت بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطارؔ قادری دامت برکاتہم العالیہلکھتے ہیں : ایک بار اَورنگ زَیب عالمگیر علیہ رَحْمَۃُ اللہ القدیر سلسلۂ عالیہ چِشتیہ کے عظیم پیشوا خواجۂ خواجگان، سلطانُ الھند حضرت سیِّدُنا خواجہ غریب نواز حسن سَنْجَری علیہ رَحْمَۃُ اللہِ القوی کے مزارِ پُراَنوار پر حاضر ہوئے۔ اِحاطہ میں ایک اندھا فقیر بیٹھا صدا لگارہا تھا: یا خواجہ غریب نواز
رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ! آنکھیں دے۔آپ نے اس فقیر سے دریافت کیا:بابا!کتنا عرصہ ہوا آنکھیں مانگتے ہوئے؟ بولا: برسوں گزر گئے مگر مراد پوری ہی نہیں ہوتی۔ فرمایا: میں مزارِ پاک پر حاضِری دے کر تھوڑی دیر میں واپَس آتا ہوں اگر آنکھیں روشن ہوگئیں فَبِہا (یعنی بَہُت خوب) ورنہ قتل کروا دوں گا۔ یہ کہہ کر فقیر پر پہرالگا کر بادشاہ حاضِری کے لئے اندر چلے گئے۔ اُدھر فقیر پر گِریہ طاری تھا اور رو رو کر فریاد کررہا تھا: یا خواجہ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ! پہلے صرف آنکھوں کا مسئلہ تھا اب تو جان پر بن گئی ہے، اگر آپ رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ نے کرم نہ فرمایا تو مارا جاؤں گا۔ جب بادشاہ حاضری دے کر لوٹے تو اُس کی آنکھیں روشن ہوچکی تھیں ۔ بادشاہ نے مسکرا کر فرمایا: تم اب تک بے دِلی اور بے توجُّہی سے مانگ رہے تھے اور اب جان کے خوف سے تم نے دل کی تڑپ کے ساتھ سوال کیا تو تمہاری مُراد پوری ہوگئی۔
(خوفناک جادوگر، ص۱۹)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اس حکایت سے ہمیں یہ درس ملا کہ فیض پانے کیلئے تڑپ سچی اور اِعتِقاد پکّا ہونا چاہئے ، ڈِھلمِل یقین( یعنی کچّے یقین )والا نہ ہو، مَثَلاً سوچتا ہو کہ فُلاں بُزُرگ سے یا فُلاں ولیُّ اللہ کے مزار پر حاضِری دینے سے نہ جانے فائدہ ہو گا یا نہیں ہو گا وغیرہ۔ ایسا شخص فیض نہیں پا سکتا ۔ نیز فیض ملنے میں وقت کی کوئی قید نہیں ہو گی اپنا اپنا مقدَّر ہو تا ہے کسی کو فور اًفیض مل جاتا ہے کسی کا برسوں تک کام نہیں ہوتا۔ کام ہو یا نہ ہو ’’یَک دَر گِیرو مُحکَم گِیر یعنی ایک دروازہ پکڑ اور مضبوطی کے ساتھ پکڑ‘‘ کے مِصداق
پڑے رَہنا چاہئے۔
کوئی آیا پا کے چلا گیا کوئی عُمربھر بھی نہ پا سکا
مِرے مولیٰ تجھ سے گِلہ نہیں یہ تو اپنا اپنا نصیب ہے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
0 Comments