غذائے روح
مسالک السالکین میں منقول ہے حضور سیدنا غوث اعظم نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی ہی کو ضیافت پر مدعو کیا۔ آپنے حضور سیدنا غوثاعظم سے عرض کیا۔
میں چشتی ہوں اور اگر مجھے غذائے روح بھی عنایت ہو تو عین نوازش ہوگی۔
حضور سیدنا غوث اعظم نے فرمایا۔
اگرچہ میرے مشرب میں سماع نہیں مگر آپ کی خاطر داری منظور ہے۔
چنانچہ محفل ترتیب دی گئی اور اس محفل میں بڑے بڑے اولیاء اللہ موجود تھے۔ حضور سیدنا غوث اعظم نے ایک خادم کو بلا کر اپنی ردائے مبارک دے کر ارشاد فرمایا۔ جس وقت میں محفل سے باہر آجاؤں اس وقت یہ چادر ہمارے حجرے کے اندر بچھا کر کواڑ بند کر دینا۔
حضور سیدنا غوث اعظم کسی ضرورت کے تحت محفل سے اٹھ کر باہرآئے تو خادم نے ردائے مبارک حجرہ کے اندر بچھا کر کواڑ بند کر دیئے۔ حجرہ کے اندر سے قسم قسم کے راگ اور ساز کی آواز آنے لگی۔ حاضرین مجلس پر وجد طاری ہو گیا۔ حضور سیدنا غوث اعظم نے عصائے مبارکہ سے زمین کو دبا رہے تھے اور چہرہ مبارک سرخ ہو گیا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی پر عجیب وجد طاری ہو گیا اور جس طرف دست مبارک اٹھاتے یا چشم مبارک کا اشارہ ہو جاتا تھا ایک قیامت برپا ہو جاتی تھی، کوئی بے ہوش ہو جاتا اور کوئی زخمی ہو جاتا تھا، بہت سے واصل بحق ہوگئے اور اللہ اللہ کر کے محفل سماع بند ہوئی۔
محفل سماع کے بعد کسی خادم نے حضور سیدنا غوث اعظم کی خدمت میں عرض کیا ۔ حضور! آپ محفل میں تشریف فرما نہیں ہوئے اور جب تک سماع ہوتا رہا آپ پر کھڑے رہے؟
حضور سیدنا غوث اعظم نے فرمایا۔میں اللہ کے حکم سے محفل سماع سے باہر اپنے عصا سے زمین کو دابے بیٹھا تھا۔ ایسا نہ ہو کہ زمین کو لرزہ آ جائے تو مخلوق خدا کو کوئی نقصان پہنچ جائے ۔ جس وقت خواجہ صاحب پر رقت طاری ہوئی تھی اس وقت زمین اور آسمان کا پنپنے لگ گئے تھے۔ میں زمین کو دبائے دبائے اور تھامے تھا مے تھک گیا اور میرا منہ سرخ ہو گیا۔ اگر میں محفل سماع میں موجود ہوتا تو قیامت صغری . آجاتی۔
0 Comments