دشمن بے حس و حرکت ہو گئے
انا ساگر کے کنارے جس جگہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے قیام کیا وہاں بے شمار مندر تھے اور ان مندوں میں قریباً ایک ہزار بت تھے اور ان کے بچاریوں کی تعداد تین سو کے لگ بھگ تھی۔ ان مندروں میں روشنی کا انتظام پرتھوی راج کی جانب سے تھا اور ان مندروں میں روزانہ ساڑھے تین من تیل جلایا جاتا تھا اور ان مندروں میں ایک مندر خاص پرتھوی راج کا تھا جس کے اخراجات کے لئے پرتھوی راج کی جانب سے کئی گاؤں وقف تھے۔ اس مندر کا نام راج مندر تھا جس میں راجہ، امیراء اور اشراف ہنود کے علاوہ عوام کو داخلہ کی اجازت نہ تھی۔ ان مندروں کے قریب ہی آپ اور آپ کے رفقاء تالاب میں وضو کر کے نماز پڑھا کرتے تھے اور اجمیر کے ہنود خصوصا برہمنوں کو یہ باتیں سخت ناگوار گزرتی تھیں۔ برہمنوں نے پرتھوی راج سے شکایت کرتے ہوئے کہا۔
ایک مسلمان فقیر اور اس کے چند ساتھی انا ساگر کے کنارےمندروں کے قریب ٹھہرے ہوئے ہیں یہ لوگ ہمارے مندروںاور تالابوں کو نجس کرتے ہیں اس سے ہمارا دھرم بگڑتا ہے۔
پرتھوی راج نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ ان فقیروں کو مندروں کے پاس سے ہٹا دو۔ ادھر کسی شخص نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی ہی کو اس کی خبر دے دی کہ برہمنوں نے آپ کی شکایت پرتھوی راج ہے کی ہے۔ آپ نےمطمئن لہجےمیں فرمایا۔
جَاءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوقًا
پرتھوی راج کے حکم کی تعمیل کے لئے پولیس کا ایک دستہ جس کے ساتھ اہل ہنود بالخصوص برہمنوں کا ایک جم غفیر تھا حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو انا ساگر کے کنارے سے اٹھانے کے لئے روانہ ہوا۔ پولیس نے آپ سے کہا۔
”یہاں سے اٹھ کر فورا شہر سے باہر نکل جائیں ورنہ طاقت سے شہر سے باہر نکال دیئے جائیں گے۔"
حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے اس بیہودہ بکو اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ پولیس اور برہمنوں نے طاقت استعمال کرنا چاہی مگر جونہی پولیس اور برہمن آپ پر حملہ کے لئے آگے بڑھے تو آپ نے ایک مٹھی خاک پر آیت الکرسی پڑھ کر حملہ آوروں کی جانب پھینک دی۔سیر الاقطاب میں یہ واقعہ یوں منقول ہے
سرکاری آدمی اور برہمن ہتھیار، لاٹھی اور گوپھن وغیرہ لے کر روانہ ہوئے اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی کا محاصرہ کر لیا۔ اس ہجوم کا مقصد آپ کو تکلیف پہنچانا تھا۔
اس عبارت کا مفہوم ہے۔
کفار اجمیر کا ارادہ صرف حضرت خواجہ معین الدین چشتی کا شہر سے اخراج ہی نہ تھا بلکہ وہ چاہتے تھے کہ وہ آپ کواور آپ کے رفقاء سمیت قتل کر دیں ۔
بہر حال حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے ایک مٹھی خاک دشمنوں کی جانب پھینکی اور جس شخص پر اس خاک کے ذرے پڑے وہ دیوانہ ہو گیا یا اس کا جسم خشک ہو گیا اور وہ بے حس و حرکت ہو گئے۔ دشمنوں میں بھگڈر مچ گئی اور لوگ بھاگتے دوڑتے ہوئے پرتھوی راج کے پاس پہنچے اور سارا حال بیان کیا اور کچھ لوگوں نے مندروں میں چھپ کر پناہ لی۔
0 Comments