نماز کی بددعا

 نماز کی بددعا

حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے ایک مرتبہ مریدوں کو تلقین کرتے۔ ہوئے فرمایا نماز اللہ عزوجل کی طرف سے بندوں کے پاس ایک امانت ہے لہذا بندوں کو چاہئے کہ اس امانت کی اس طرح حفاظت کریں کہ قدرے قلیل بھی خیانت کا شائبہ تک نہ ہو اور نماز اس طرح ادا کرنی چاہئے جو کہ نماز ادا کرنے کا حق ہے، رکوع و سجود اچھی طرح ادا کرنے چاہئیں اور نماز کے تمام ارکان اطمینان خاطر اور تعدیل کے ساتھ ادا کرنے چاہئیں۔

 پھر حضرت خواجہ معین الدین چشتی  نے فرمایا میں نے صلوٰۃ مسعودی میں لکھا ہوا دیکھا ہے کہ جب کوئی بندہ نماز ادا کرتا ہے، رکوع، سجود، قرآت و تسبیح  سب ارکان کو بخوبی ادا کرتا ہے تو اس نماز کو آسمان پر فرشتے لے جاتے ہیں اور اس نماز کا نور پورے آسمان پر پھیل جاتا ہے جس کی وجہ سے آسمانوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ وہ نماز عرش کے نیچے جاتی ہے ندا آتی ہے اے نماز سجدہ کر اور اس نمازی کے لئے ہماری بارگاہ میں بخشش طلب کر جس نے تیرا حق ادا کیا ہے۔ نماز حسب فرمان اللہ عزوجل سے بخشش طلب کرتی ہے اور رحمت خداوندی کا مینہ برسنے لگتا ہے۔ 

یہ بیان کرتے ہوئے حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور آپ نے فرمایا۔

یہ ان لوگوں کا ذکر ہے جو کہ نماز کا پورا حق ادا کرتے ہیں۔ جو لوگ نماز کے ارکان کو حسن و خوبی سے نہیں نبھاتے تو ان کی نماز جب آسمان بالا پر پہنچتی ہے تو آسمان کے دروازے نہیں کھلتے۔ فرمان ہوتا ہے کہ اس نماز کو واپس لے جا کر نمازی کے منہ پر مار دو۔ نماز اپنے پڑھنے والے کے حق میں بد دعا کرتی ہے اور کہ کہتی ہے اے شخص ! اللہ تجھے برباد کرے جس طرح کہ تو نے مجھے برباد کیا۔


Post a Comment

0 Comments