قدرت رکھنے والے بندے

 قدرت رکھنے والے بندے

حضرت خواجہ معین الدین چشتی  فرماتے ہیں کہ میں حضرت خواجہ عثمان ہارونی  کی خدمت اقدس میں حاضر تھا۔ درویشوں کی ایک جماعت بھی بیٹھی ہوئی تھی اور اولیاء اللہ کے مجاہدوں کا ذکر ہو رہا تھا۔ اسی دوران ایک دبلا پتلا اور کمزور سا بوڑھا شخص مجلس میں حاضر ہوا اور سلام عرض کیا۔ حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا۔ اس بوڑھے نے رو رو کر اپنا قصہ بیان کیا کہ آج سے میں برس قبل کی بات ہے میر الڑ کا غائب ہو گیا اس کی جدائی سے میری یہ حالت ہوگئی ہے، نہ معلوم وہ زندہ ہو گا یا مرگیا ہوگا اور میں حضور کی خدمت میں اس لئے حاضر ہوا ہوں کہ اس کی جان و سلامتی کیلئے سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص کی تلاوت کرنے کی نسبت عرض کروں کہ آپ عمر یہ دعا فرمائیں کہ میرا بیٹا واپس آ جائے۔حضرت خواجہ معین الدین چشتی فرماتے ہیں مرشد پاک حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے مراقبہ کیا اور بہت دیر بعد سر اٹھا کر کہا کہ حاضرین سورۃ فاتحہ اور سورۃ اخلاص کی تلاوت کریں تا کہ اس کا لڑکا واپس آ جائے۔ جب سب لوگ فاتحہ سے فارغ ہو گئے تو آپ نے اس بوڑھے سے فرمایا جاؤ تم گھر چلے جاؤ تمہارا لڑکا واپس آرہا ہے اور جب تمہارا لڑکا واپس آ جائے تو تم اسے میرے پاس لے آنا۔

 حضرت خواجہ معین الدین چشتی فرماتے ہیں وہ بوڑھا تعظیم و تکریم بجا  لا کر رخصت ہوا۔ 

ابھی وہ بوڑھا اپنے گھر نہ پہنچا تھا کہ اس کو کسی شخص نے دیکھ کر کہا کہ مبارک ہو تمہارا لڑکا گھر واپس آگیا۔ گھر پہنچ کر لڑکے کو دیکھ کر اس کی آنکھیں شاد ہوئیں۔ پھر وہ الٹے پاؤں اپنے لڑکے کو ساتھ لے کر حضرت خواجہ عثمان ہارونی  کی خدمت میں حاضر ہوا اور قدم بوسی کی۔ آپ  نے اس لڑکے کو اپنے پاس بٹھا کر اس سے دریافت کیا کہ تو کہاں تھا؟

 اس نے عرض کیا کہ حضور ایک کشتی میں قید تھا اور ہاتھ پیر بندھے ہوئے تھے اور مجھے کشتی والے نے قید کر رکھا تھا۔ ایک درویش بالکل آپ  کی شکل وصورت کے آئے اور ہتھکڑیاں کھول دیں اور انہوں نے گردن سے پکڑ کر مجھے اپنے پاس کھڑا کیا اور اپنے پاؤں میرے پاؤں پر رکھ دیئے ۔ اس کے بعد فرمایا اپنی آنکھیں بند کر لو میں نے آنکھیں بند کر لیں اور پھر جب آنکھیں کھولیں تو خود کو اپنے مکان میں پایا۔ اس کے بعد وہ لڑکا کچھ کہنا چاہتا تھا آپ ہی ہے نے ایسے اشارے سے منع فرما دیا۔ اس بوڑھے نے آپ  کے قدموں میں سررکھ دیا اور عرض کیا۔ حضور اس زمانہ میں بھی ایسی قدرت رکھنے والے اللہ کے بندے موجود ہیں مگر انہوں نے خود کو چھپا رکھا ہے۔


Post a Comment

0 Comments