دوزخ سانپ کے منہ میں ہے

 دوزخ سانپ کے منہ میں ہے

حضرت خواجہ معین الدین چشتی  فرماتے ہیں اللہ عزوجل نے ایک بہت ہی بڑا سانپ پیدا کیا اور پھر دوزخ پیدا کی پھر سانپ سے فرمایا میں تجھے ایک امانت دیتا ہوں اسے بحفاظت سنبھال کر رکھنا۔ سانپ نے عرض کیا میں ادنی فرمانبردار ہوں جو کچھ حکم ہوگا اسے دل و جان سے پورا کروں گا۔ حکم ہوا منہ کھولو۔ سانپ نے منہ کھول دیا۔ اللہ عزوجل نے فرشتوں کو حکم دیا کہ دوزخ کو اٹھا کر اس کے منہ میں رکھ ۔ دو فرشتوں نے حکم کی تعمیل کی۔ اس کے بعد سانپ نے منہ بند کر لیا۔ اب دوزخ زمین کے ساتویں تہہ میں اس سانپ کے منہ میں ہے۔ اگر دوزخ اس سانپ کے منہ میں نہ ہوتی تو تمام عالم جل کر خاکستر ہو جاتا۔ قیامت کے دن اللہ عزوجل فرشتوں کو حکم دے گا کہ دوزخ کو اس کے منہ سے نکال لو ۔ فرشتے اس کو اس سانپ کے منہ سے نکال لیں گے۔ ہر دوزخ میں ہزار زنجیریں ہوں گی اور ہر زنجیر کو ہزار فرشتے بھینچیں گے۔ ہر فرشتہ میں اس قدر قوت اور اس قدر طول و عرض ہوگا کہ اگر اللہ عزوجل انہیں حکم دے تو تمام مخلوقات کا ایک لقمہ کرلیں۔ یہ فرشتے دوزخ کی آگ سلگائیں گے اور پھر جب پھونک ماریں گے تو تمام میدان قیامت میں دھواں پھیل جائے گا۔ جو شخص دوزخ کے عذاب سے محفوظ رہنا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ عبادت کرے اور ایسی عبادت جسے وہ اپنے نزدیک سب سے بہتر سمجھے۔

 قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کا کی نے عرض کیا۔

حضور! وہ کون سی عبادت ہے؟ 

حضرت خواجہ معین الدین چشتی  نے فرمایا۔

 غریبوں کی دادرسی کرنا ، محتا جوں کی حاجت روائی کرنا، بھوکے کو کھانا کھلانا اور ان اعمال سے بہتر کوئی عمل نہیں ہے۔


Post a Comment

0 Comments