شیخ محمد یادگار کا تائب ہونا

 شیخ محمد یادگار کا تائب ہونا

حضرت خواجہ معین الدین چشتی ہرات سے سبز وار تشریف لے گئے اور ان دنوں سبز وار کا حاکم شیخ محمد یادگار تھا۔ اس کو خلفائے ثلاثہ حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی  سے اس قدر ضد تھی کہ جس شخص کے نام کا کوئی جزو بھی ابوبکر، عمر اور عثمان ہوتا تھا وہ اس کے حاکمانہ عتاب کا نشانہ بنتا تھا۔ شیخ محمد یادگار کا باغ شہر سے باہر تھا۔ اس حوض کے کنارے ایک نشست گاہ تھی جہاں بیٹھ کرشیخ محمد یادگار داد عیش دیا کرتا تھا۔

 حسن اتفاق سے جب حضرت خواجہ معین الدین چشتی سبزوار پہنچے تو ۔ بہت زیادہ تھکے ہوئے تھے اس لئے اس باغ میں ٹھہر گئے۔ آپ نے حوض میں غسل کر کے دو رکعت نماز ادا کی اور تلاوت کلام خداوندی میں مشغول ہو گئے۔ اسی دوران اطلاع آئی کہ حاکم شہر شیخ محمد یادگار سیر و تفریح کے لئے باغ میں تشریف لا رہاہے۔ باغ کے مالی اور خدام نے صفائی اور آرائش شروع کر دی۔ حوض کے کنارےفرش فروش بچھانے آئے تو آپ  کو رونق افروز دیکھا۔

خدام چاہتے تھے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی مرید کو حوض کے کنارنے سے اٹھا دیں مگر آپ کا نورانی چہرہ دیکھ کر کچھ بولنے کی ہمت نہ ہوئی۔ انہوں نے آپ  کے قریب ہی حوض کے کنارے خوشنما اور بیش قیمت قالینوں کا فرش بچھا دیا اور ہر قسم کا سامان عیش سجا دیا۔ کچھ دیر بعد شیخ محمد یادگار کی سواری آئی۔ خدام مودب کھڑے ہو گئے۔ 

خدام جانتے تھے کہ شیخ محمد یاد گار نہایت بد عقیدہ آدمی ہے اور اولیاء اللہ   کے بارے میں اچھے خیالات نہیں رکھتا اور ممکن ہے کہ وہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو کوئی نقصان پہنچائے۔ ایک خادم نے نہایت ادب کے ساتھآپ کی خدمت میں عرض کیا۔ حضور! اگر حرج نہ ہو تو آپ نے کسی دوسری جگہ تشریف لے جائیں۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی  نے فرمایا ۔

 تم کوئی فکر نہ کرو اور قدرت خدا کا تماشہ دیکھو “ 

خادم وہاں سے ہٹ کر ایک درخت کی آڑ میں کھڑا ہو کر دیکھنے لگا کہ اب پردہ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد شیخ محمد یادگار آیا تو حضرت خواجہ معین الدین چشتی  کو اپنی جگہ دیکھ کو غصہ سے  خدام سے مخاطب ہوا۔

 اس فقیر کو یہاں سے کیوں نہیں اٹھایا ؟ 

خادم خوف کے مارے کانپنے لگا اور اس کی زبان سے ایک لفظ بھی نہ نکل سکا۔حضرت خواجہ معین الدین چشتی  نے شیخ محمد یادگار کی طرف ایک نظر ڈالی تو وہ لرزہ براندام ہو کر گر پڑا اور مرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگا۔ محفل عیش و نشاط ماتم کد ہ بن گئی۔ خدام نظریں جمائے آپ کو دیکھ رہے تھے۔ خادم نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی  سے مودبانہ التجا کی۔

 حضور  یہ آپ  کے مرتبہ کے شناس نہیں تھے اس لئے ان سے گستاخی سرزد ہو گئی ان کا قصور معاف فرما دیجئے ۔

 حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو تو شیخ محمد یادگار کی اصلاح منظور تھی اس لئے خادم سے فرمایا۔

بسم اللہ پڑھ کر اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارو۔

 خادم نے حکم کی تعمیل کی اور شیخ محمد یادگار کو ہوش آگیا مگر  اس کی حالت بدل چکی تھی اور وہ حکومت کے نشہ سے نکل چکا تھا۔ شیخ محمد یادگار نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی  کے قدموں میں اپنا سر رکھ دیا اور عرض کیا۔

حضرت میں تمام ممنوعات سے باز آیا آپ   میری خطا معاف فرما دیجئے ۔حضرت خواجہ صاحب معین الدین چشتی نے اپنے دست شفقت سے اس کا سر اٹھایا اور اصحاب کبار کے مناقب اس انداز میں بیان فرمائے کہ تمام حاضرین پر رقت طاری ہو گئی۔ اس کے بعد شیخ محمد یادگار نے وضو کر کے دوگانہ شکر ادا کیا اور آپ کے دست حق پر بیعت ہو گئے ۔

 شیخ محمد یاد گار نے اپنا کل مال و اثاثہ آپ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ آپ نے فرمایا۔

 جن لوگوں سے تم نے یہ مال جبراً حاصل کیا ہے اسے ان کو واپس لوٹا دو تا کہ قیامت کے دن کوئی تمہارا ہاتھ نہ پکڑے

شیخ محمد یادگار نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی  کے حکم پر اپنا سارا مال و دولت ان کے حقیقی مالکان کے حوالے کر دیا اور جو کچھ بچ گیا وہ فقراء میں تقسیم کر دیا اور اپنے نفس پر عیش و آرام حرام کر کے اپنی منکوحہ کو طلاق دے دی۔ اس کے بعد وہ ہر وقت آپ  کی خدمت میں رہنے لگا اور آپ پر اس قدر عاشق ہوا کہ جدائی نا قابل برداشت ہو گئی۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی سبزوار سے چلے تو شیخ محمد یادگار نے آپ  کے ہمراہ جانا چاہا مگر آپ  بزرگ تھے اس وقت تو اپنے ساتھ لے جانے سے انکار کر دیا البتہ جس وقت ہندوستان روانہ ہوئے تو شیخ محمد یادگار کو اپنے ساتھ لے گئے۔ شیخ محمد یاد گار مدت العمر تک آپ  کے خادم بن کر رہے۔ آپ  کے وصال کے بعد بھی آپ  کے مزار پر خادم بن کر زندگی گزاری اور وصال کے بعد آپ کے مزار مبارک کے جانب مشرق مدفون ہوئے۔ 

جہاں ۲۵ اور ۲۶ رجب کو بڑی دھوم دھام سے عرس ہوتا ہے۔


Post a Comment

0 Comments