جا تیرے اونٹ کھڑے ہو گئے
حضرت خواجہ معین الدین چشتی ۷محرم الحرام ۵۶۱ھ کو اجمیر میں داخل ہوئے اور شہر سے باہر ایک سایہ دار درخت کے نیچے قیام فرمانے کا ارادہ کیا۔ ابھی آپ کے ساتھی سامان بھی نہ رکھنے پائے تھے کہ پرتھوی راج کے ایک فرعون صفت ملازم نے حقارت آمیز لہجہ میں کہا یہاں سامان نہ اتارو یہاں راجہ کے اونٹ بیٹھتے ہیں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا ہمیں اونٹوں سے کیا غرض وہ یہاں بیٹھتے رہیں گے۔ آپ اپنے ساتھیوں کی معیت میں انا ساگر کے کنارے اس پہاڑی پر تشریف لے گئے جہاں آپ کی چلہ گاہ ہے۔ شام ہوئی تو راجہ کے اونٹ اس جگہ آکر بیٹھ گئے اور ایسے بیٹھے کہ اٹھنے کا نام نہ لیا۔ راجہ کے ملازموں نے بہت کوشش کی خوب مارا پیٹا مگر وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئے۔ یہ ماجرا دیکھ کر ملازم دوڑتے ہوئے راجہ کے پاس آئے۔ ملازموں کی زبان سے آپ کی تشریف آوری اور اونٹوں کا واقعہ سن کر پرتھوی راج کے پیروں تلے زمین نکل گئی اور وہ تھوڑی دیر سوچ بچار کے بعد کہنے لگا۔
علاج ایں غیر آن نیست کہ پیش ہماںدرویش بردی و سرخود در پیش پایش با فالحاج نمائی
مصیبت کا علاج اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ تو اس درویش کے پاس جا کر اپنا سر اس کے قدموں میں رکھ کر شاندار عاجزی کا اظہار کرے
چنانچہ ملازموں نے ایسا ہی کیا اور پرتھوی راج اپنی ماں کی پیشین گوئی سے پہلے ہی خائف تھا اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی اجمیر آمد سے اسے کامل یقین ہو گیا تھا کہ ان کا مقابلہ اس کے بس کا کام نہیں ہے۔ سرحد اور اندرون ملک کے انتظام کے باوجود اس فقیر کا صحیح سالم پہنچ جانا یقینا موت کا پیغام تھا مگر وہ راجہ تھا اور ہندوستان کا سب سے بڑا راجہ ، حکومت، طاقت اور دولت اس کے پاس تھی آپ کے سامنے بلا سبب ہتھیار ڈالنا اس کی شان کے خلاف تھا مگر پھر بھی اپنے دبے الفاظ میں اسے حقیقت اور بے بسی کا اقرار کرنا پڑا اور ملازموں سے یہ بات کہے بغیر نہ رہا گیا کہ ان فقیروں کو راستہ سے ہٹانا آسان کام نہیں ہے۔ اس تازہ مصیبت کا علاج یہی تھا کہ اس فقیر کے قدموں میں سر رکھ کر عاجزی سے کام لے کر اپنا مطلب نکالے تا کہ رسوائی سے بچ سکے۔ ملازموں نے حکم کی تعمیل کی اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے قدموں میں سر رکھ کر معافی مانگی۔ آپ نے فرمایا
بروشنترانت برخاستاند
جا تیرے اونٹ کھڑے ہو گئے ۔
ملازموں نے واپس آکر دیکھا تو اونٹ کھڑے تھے۔ ملازموں نے راجہ کو اطلاع کی اور پرتھوی راج اس کرامت کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔
0 Comments