دوزخ سے بچنے کا یہ طریقہ درست نہیں
ایک دن حضرت خواجہ معین الدین چشتی سیر و سیاحت کرتے ہوئے ایک صحرا سے گزرے وہاں آتش پرستوں کا ایک گروہ آگ کی پرستش میں مصروف تھا اور وہ لوگ گروہ کی شکل میں آگ کے گرد ہالہ بنا کر اس کی پرستش کر رہے تھے۔ یہ لوگ اس قدر ریاضت و مجاہدات کرتے تھے کہ چھ چھ مہینہ تک دانہ پانی زبان پر نہ رکھتے تھے اور ریاضت کرتے کرتے اس درجہ دل کی صفائی ہو گئی کہ فورا دل کی بات بتا دیتے تھے اور لوگ ان کی باتیں سن کہ گمراہ ہوتے جارہے تھے۔ آپ نے ان سے آگ کی پرستش کی وجہ پوچھی تو ان لوگوں نے جواب دیا۔ ہم آگ کو اس لئے پوجتے ہیں تاکہ دوزخ میں یہ آگ ہمیں تکلیف نہ پہنچائے۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے فرمایا۔
دوزخ سے بچنے کا یہ طریقہ درست نہیں، اس آگ کو جس نے پیدا کیا ہے اس کی پرستش کرو، پھر دیکھنا کہ کیا مجال ہے کہ آگ تمہیں ذرا برابر بھی گزند پہنچائے ۔ تم لوگ اتنے دنوں سے آگ کی پرستش کر رہے ہو ذرا اس آگ میں ہاتھ تو ڈالو تمہیں معلو م ہو جائے گا کہ یہ آتش پرستی کا کیا صلہ دیتی ہے ؟
ان آتش پرستوں نے جواب دیا ۔
آگ کا کام تو جلانے کا ہے ہمارا ہاتھ جل جائے گا لیکن اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ آگ حق پرستوں کو نہ جلائے گی ؟
حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے فرمایا ۔ دیکھو ہم اللہ کی عبادت کرنے والے ہیں یہ آگ ہمارے جسم کو تو کیا ہماری جوتی کو بھی نہیں جلا سکتی۔
یہ فرما کر حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے اپنی ایک جوتی آگ میں ڈال دی اور جوتی بہت دیر تک آگ میں پڑی رہی لیکن آگ کا ذرا برابر بھی اثر جوتی پر نہ ہوا۔ آپ کی یہ کرامت دیکھ کر سب آتش پرست مسلمان ہو گئے۔
0 Comments