جے پال ، خواجہ خواجگان کے قدموں میں

 جے پال ، خواجہ خواجگان کے قدموں میں

جے پال جوگی کی بہٹ دھرمی برقرار تھی اس نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو مخاطب کر کے کہا

اب میرا اور تمہارا مقابلہ باقی رہ گیا ہے. بہتر یہ ہے کہ تم اجمیر چھوڑ کر چلے جاؤ ورنہ آسمان پر جا کر تمہارے اوپر اس قدر بلائیں برساؤں گا کہ تم سنبھل نہ سکو گے۔

 حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے جوابا ذیل کا شعر پڑھاے 

تو کار زمین رانکو ساختی 

کہ با آسمان نیز پر داختی 

یہ سن کر جے پال جوگی دل ہی دل میں شرمندہ ضرور ہوا مگر اسے پرتھوی راج کی ناراضگی کا بھی ڈر تھا لہذاوہ ہرن کی کھال ہوا میں پھینک کر اس پر بیٹھ گیا اور آسمان کی طرف پرواز کرنے لگا پھر وہ نظروں سے غائب ہو گیا اور لوگ حیران رہ گئے کہ دیکھو اب کیا ہوتا ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے اپنی کھڑاؤں کو حکم دیا۔

جاؤ اس کافر اور مروود کو مارتے مارتے ہوئے زمین پر لے آؤ۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی  کے حکم کی دیر تھی کہ کھڑا ئیں ہوا میں اڑنے لگی۔ لوگوں کی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھی ہوئی تھیں۔ چند لحوں میں جے پال جوگی زمین پر اتر تا ہوا نظر آیا۔ جے پال کے منہ پر کھڑا ئیں پڑ رہی تھیں اور پٹتے پیٹتے اس کا حال برا ہو چکا تھا۔ جے پال جوگی زمین پر اتر آیا اور فورا آپ کے قدموں میں گر پڑا، معافی مانگنے لگا۔ آپ نے ایک پیالہ پانی کا دیا۔ پانی پیتے ہی اس کے دل سے کفر کی سیاہی دور ہو گئی اور وہ صدق دل سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔ آپ  نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا۔ 

جے پال ! تمہارے دل میں کوئی آرزو ہو تو بیان کرو۔“

 جے پال نے زمین خدمت کو بوسہ دے کر عرض کیا۔

 حضور ! حق کے طالب ریاضت و مجاہدات سے جس مقام پر پہنچتے ہیں مجھے بھی وہ مقام عطا فرمایا جائے ۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی  نے فرمایا۔

یہ مرتبہ فقراء کی صحبت اور ہم نشینی کے بعد ہی ملتا ہے۔

 جے پال نے عرض کیا۔

حضور! آپ  نے جو کچھ ارشاد فرمایا وہ درست ہے میری دلی آرزو ہے میں اس مقام کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کروں۔

 حضرت خواجہ معین الدین چشتی  نے مراقبہ فرمایا۔

 کچھ دیر بعد آ نکھ کھول کر اجے پال پر نظر ڈالی تو فورا عالم ظاہر اس کی آنکھوں کے سامنے سے غائب ہو گئے۔ 

جے پال نے عالم باطن میں دیکھا کہ آپ  آسمان کی جانب مجو پرواز ہیں اور جے پال ان کے پیچھے ہے، آسمان طے ہوتے چلے جا رہے تھے۔ جے پال کو فرشتے تعاقب سے روک دیتے ہیں اور وہ فریاد کرتا ہے۔ آپ  متوجہ ہوتے نہیں تو غیب سے ندا آتی ہے۔

” جے پال کو معین الدین کی دوستی کی وجہ سے آگے جانے دو۔

پھر وہ چلتے چلتے ایسے مقام پر پہنچے جہاں لطافت اور نزاکت بیان نہیں کی جاسکتی۔ 

وہاں فرشتوں کی بہت سی جماعتیں نظر آئیں۔ 

یہ فرشتے حضرت خواجہ معین الدین چشتی  کی تکریم اور تعظیم کرتے ہوئے پکارتے تھے۔ اللہ کا دوست معین الدین  آیا ہوا ہے

 کیا ہی خوش نصیب ہو گا وہ آدمی جو ان کی خدمت سے فیضیاب ہوا ہو۔

 اس مقام پر پہنچ کر حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے فرمایا۔

 اس راہ میں اس سے بھی زیادہ اور بار یک مقامات ہیں یہاں تک تو تو آگیا ہے یہاں سے آگے تجھے جانے نہ دیں گے ابھی تجھ میں ان مقامات تک جانے کی استعداد پیدا نہیں ہوئی بہتر یہ ہے کہ اس مقام سے واپس چلا جائے جے پال نے عرض کیا۔ 

غلام تعمیل حکم کے لئے حاضر ہے۔

 حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ نے فرمایا۔

 اپنی آنکھیں بند کرلو“

حضرت خواجہ معین الدین پھر کچھ دیر بعد فرمایا۔

 اپنی آنکھیں کھول دو۔

جے پال نے آنکھیں کھولیں تو اسی جگہ پر بیٹھا ہوا تھا اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی  بھی اپنی جگہ پر ہی موجود تھے ۔ 

آپ نے فرمایا۔

 اب تو تمہاری دلی آرزو پوری ہو گئی ہے اور کوئی آرزو ہے توبیان کرو۔

جے پال نے عرض کیا۔ حضور! بس میری ایک ہی عرض ہے کہ مجھے دائمی حیات عطا ہو تیں ہمیشہ زندہ رہوں۔“

اس بات میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اللہ کو تامل ہوا اور مراقبہ فرمایا یہ حکم ہوا۔

اے معین الدین  ! جے پال کے حق میں تم جو مانگوگے وہ قبول ہو گا تم مانگو میں تمہاری دعا کو قبول کروں گا۔“

حضرت خواجہ معین الدین چشتی  نے آنکھیں کھول دیں ، دوگانہ ادا کیاور دعا فرمائی۔ آپ نے جو بھی دعا مانگی وہ قبول ہوئی۔ 

اس کے بعد آپ  نے جے پال کو پاس بلا کر اس کے سر اور چہرہ پر دست شفقت پھیرا۔ اس کو خوشخبری سنائی۔

تو قیامت تک زندہ رہے گا لیکن لوگوں کی نظروں سے غائب ہو کر۔

چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جے پال کا اسلامی نام حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے عبداللہ رکھا۔ وہ اس نام سے مشہور ہوئے اور زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گے۔ ان کی ملاقات بہت سے لوگوں سے ہوتی ہے۔ وہ اجمیر شریف کے پہاڑوں میں رہتے ہیں اور بھولے بھٹکے ہوئے مسافروں کی راہنمائی کرتے ہیں۔ مصیبت کے وقت کام آتے ہیں ۔ 

جے پال جوگی کہاں تو حضرت خواجہ معین الدین چشتی  کے دشمنوں میں سے تھا اور کہاں وہ آپ کی صحبت کی برکت سے کاملین میں سے ہو گیا۔ 

سیر الاقطاب میں ہے کہ وہ ہر جمعہ کی شب کو حضرت خواجہ معین الدین چشتی  کے مزار پر حاضر ہوتے ہیں۔

Post a Comment

0 Comments