فتح کا دارو مدار قلت و کثرت پر نہیں

 فتح کا دارو مدار قلت و کثرت پر نہیں

جس دن حضرت خواجہ معین الدین چشتی  کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے تھے۔

میں نے پرتھوی راج کو زندہ گرفتار کر کے شاہ اسلام کے حوالے کیا،

اس رات سلطان شہاب الدین غوری جو کہ اس وقت خراسان میں تھانے خواب میں دیکھا کہ وہ سلطان موصوف ہندوستان میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے سامنے کھڑا ہے اور آپ  اس سے فرما رہے ہیں۔ اےشہاب الدین حق تعالی نے تجھے ہندوستان کی بادشاہ اور سلطنت عطا فرمائی ہے، جلد ہندوستان کی طرف متوجہ ہو اور اس بد بخت راجہ کو زندہ گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دے۔خواب سے بیدار ہو کر سلطان موصوف نے عقلمند اور اہل علم  و فضل سے اس خواب کا تذکرہ کیا۔ وہ حیران تھا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ ابھی کچھ دن ہوئے کہ ہندوستان ہیں مجھے شکست ہو چکی ہے اور یہ مرد بزرگ کون  ہیں۔ اور مجھے ہندوستان کی بادشاہت اورسلطنت کیسے مل گئی؟ 

بہر حال یہ خواب سن کر دانااور صاحب علم و فضل حضرات خوشی سےاچھل پڑے اور سلطان موصوف کو مبارک باد دی اور فتح و کامرانی کی نوید سنائی۔

سلطان شہاب الدین جس دن سے ہندوستان سے شکست کھا کر لوٹا تھا اس دن سے اس کے دل میں انتقام کے شعلے بھڑک رہے تھے اور خفیہ طور پر جنگ کی تیاریوں میں مصروف تھا لیکن کسی کو علم نہ تھا کہ وہ ہندوستان پر کب حملہ آور ہو گا؟سلطان شہاب الدین غوری نے شکست کے دن سے آج تک کپڑے نہیں بدلے تھے نہ ہی حرم سرا میں بستر پر سویا تھا۔ اس خواب نے سلطان موصوف کے دل میں ایک نیا ولولہ اور جوش پیدا کیا۔ آٹھویں دن وہ روانہ ہو گیا اور پشاور پہنچ کر پٹھان سرداروں سے ترقی اور منصب کا وعدہ کر کے گزشتہ سال کے داغ بدنامی کو دھونے کی تلقین کی اور پھر ملتان میں بھی چند روز قیام کیا۔ 

دربار عام منعقد ہوا سلطان شہاب الدین نے تمام چھوٹے بڑے سرداروں کو مخاطب کرتے ہوئے تقریر کر کے فرمایا۔ 

پچھلے سال بدنامی کا جو داغ اسلام کے ماتھے پر لگا تھا وہ خاضرین سے مخفی نہیں ہے۔ اس لئے موقع ہے اور ہر مسلمان پرفرض ہے کہ اسے تلوار کے پانی سے دھو کر صاف کرے۔“

 تمام سرداروں نے تلوار کے قبضوں پر ہاتھ رکھ کر سر جھکا دیئے۔ ملتان سے روانہ ہو کر سلطان موصوف لاہور آیا۔ سید توام الملک رکن الدین کو اپنا سفیر بنا کر پر تھویراج کے پاس خط دے کر بھیجا جس کا مضمون یہ تھا۔

 رائے پتھورا جو راجگان ہند کا مہاراجہ ہے کو تحریر کیا جاتا ہے کہ وہ اسلام کی اطاعت قبول کرے اور ملک کو آماجگاہ فتنہ و فساد نہ بنائے یہ ملک اللہ کا ہے اور اسی کا حکم نافذ ہوگا ورنہ تلوار فیصلہ کرے گی ۔


 پرتھوی راج نے اس خط کا نہایت تلخ جواب دیا اور تمام راجگان ہند کے نام گشتی تحریر جاری کی کہ سلطان شہاب الدین کا مقابلہ کرنے کے لئے فوراً تیار ہو جاؤ اور پھر تھوڑے ہی دنوں میں تین لاکھ راجپوتوں کا لشکر پرتھوی راج کے جھنڈے تلے جمع ہو گیا۔ ادھر پرتھوی راج کی متحدہ فوج چلی تو ادھر سلطان شہاب الدین غوری کالشکر آگے بڑھا۔ سردستی ندی کے دونوں کناروں پر خیمہ زن ہوئے۔

 اسی اثناء میں سلطان شہاب الدین غوری کو پرتھوی راج کا خط ملا۔ جس میں لکھا ہوا تھا کہ اسلامی لشکر کے سپہ سالار کو جاسوسوں کے ذریعہ معلوم ہو گیا ہو گا کہ ست دھرم کی رکشا کیلئے ہمارے پاس آسمان کے ستاروں سے بھی زیادہ لشکر ہے اور ہندوستان کے گوشہ گوشہ سے دھرم رکھشک چلے آ رہے ہیں۔ ان میں سے ایک ایسا بہادر راجپوت بھی ہے جس کی تلوار سے کابل اور قندھار نے پناہ مانگی ہے۔ تم ان ترک بچوں اور افغان جوانوں پر رحم کھاتے ہوئے یہاں سے لوٹ جاؤ ۔ ورنہ یاد رکھو ہمارے پاس بے شمار سامان موجود ہے۔ تمہارا ایک بھی سپاہی زندہ واپس نہ جائے گا۔ 

سلطان شہاب الدین غوری خط کو پڑھ کر خاموش ہو گیا۔ اسے یقین اور اعتقاد تھا کہ فتح کا دارو مدار قلت و کثرت پر نہیں ہے بلکہ 

کم مِن فِيۃٍ قَلِيلَۃٍ غلبت فِيءَۃٌ کَثِيرَۃٌ بِاذْنِ اللَّہِ 

پر سے اور فتح میری ہی ہو گی ۔ شہاب الدین غوری کے پاس صرف ایک  لاکھ ستر ہزار فوج تھی۔


Post a Comment

0 Comments