ایک درویش سے ملاقات کا احوال

 ایک درویش سے ملاقات کا احوال 

قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کا کی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مرشد پاک خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے ہمراہ سفر حج پر تھا اور ہم حج بیت اللہ کی سعادت کے بعد واپس لوٹے تو ایک شہر میں ہمارا قیام ہوا جہاں ہم نے ایک غار میں ایک بزرگ کو دیکھا جن کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں وہ آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے اور سوکھ کر کانٹا ہو گئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کوئی سوکھی لکڑی کھڑی ہے۔ یہ حالت دیکھ کر خواجہ خواجگان نے فرمایا ۔ اگر کہو تو چند روز یہاں قیام کیا جائے۔

حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی  فرماتے ہیں میں نے آداب بجالا کر کہا بہت خوب اور پھر ہم نے وہاں مہینہ بھر قیام کیا اور ان بزرگ کی خدمت کی۔ اس دوران وہ بزرگ صرف ایک دفعہ ہوش میں آئے۔ ہم نے کھڑے ہو کر سلام کیا۔ سلام کا جواب دے کر انہوں نے کہا۔ دوستو ! تم نے بڑی تکلیف اٹھائی لیکن تمہاری اس تکلیف کی مکافات ضرور بلند مرتبہ ملتا ہے۔

حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کا کی  اس لیے فرماتے ہیں اس گفتگو کے بعد  ان بزرگ نے ہمیں بیٹھنے کو کہا۔ ہم بیٹھ گئے تو انہوں نے باتیں شروع کیں ۔ کہنے لگے۔

میں شیخ محمد اسلم طوی کے فرزندوں میں سے ہوں ،تیس برس سے عالم استغراق میں ہوں ۔ نہ دن کو جانتا ہوں اور نہ ہی رات کو جانتا ہوں۔ آج اللہ عزوجل نے مجھے تمہارے سبب ہوش عطا فرمایا ہے۔ اے عزیز و ! اب تم لوٹ جاؤ۔ اللہ عز و جل تمہیں اس تکلیف کا بہترین اجر دے گا۔ لیکن ایک بات یاد رکھنا کہ چونکہ تم نے بساط طریقت پر قدم رکھا ہے اس لئے دنیاوی اور نفسانی کی طرف کبھی خواہش نہ کرنا، خلقت سے ہمیشہ کنارہ کش رہنا، جو چیز تمہارے پاس تحفتہ آئے تو یا میسر ہو اسے اپنے پاس نہ رکھنا بلکہ راہ خدا میں خرچ کر دینا اور خدا کے سوا کسی غیر میں مشغول نہ ہونا ۔

حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کا کی فرماتے ہیں یہ نصیحت فرما کر وہ بزرگ ایک مرتبہ پھر عالم تحیر میں مستغرق ہو گئے اور ہم وہاں سے چلے گئے۔

Post a Comment

0 Comments