شباب معرفت کا جام
حضرت شیخ ابراہیم قندوزی کو حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی مہمان نوازی کا یہ انداز بہت پسند آیا اور آپ کا یہ ادب بہت بھلا محسوس ہوا۔ حضرت شیخ ابراہیم قندوزی پہچان گئے کہ یہ بچہ نہایت ہونہار اور راہ حق کا مثلاشی ہے۔
حضرت شیخ ابراہیم قندوزی نے اپنی جیب سے ایک کھلی کا ٹکڑا نکالا اور دندان مبارک سے چبا کر حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے دہن مبارک میں ڈال دیا۔ وہ کھلی کا ٹکڑا اشباب معرفت کا ایک جام تھا جسے پیتے ہی آپ پر خودی کی کیفیت طاری ہو گئی اور نگاہوں سے تمام حجاب دور ہو گئے ، آنکھوں میں نور ہی نور چھا گیا، تعینات کے حجابات سامنے سے اٹھ گئے، جوش حیرت قلب پر طاری ہو گیا اور آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
یہ نہیں کہا جا سکتا حضرت خواجہ معین الدین چشتی اس حالت فراموشی میں کب تک آئینہ حیرت بنے رہے۔ جب آپ کو ہوش آیا تو ساتی جام معرفت محفل سے اٹھ چکا تھا، دل قابو سے باہر ہو گیا تھا اور طبیعت پر جبر کر کے دامن صبر قرارتھام کر بیٹھ گئے۔ عشق میں صبر چونکہ انتہائی دشوار ہوتا ہے لہذا حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو بھی قرار نہ رہا اور جو جلوہ آپ کو حضرت شیخ ابراہیم قندوزی دکھا چکے تھے اس جلوہ کو دیکھنے کے بعد اب خود پر ایک دیوانگی کی کیفیت طاری ہو گئی تھی اور دنیا اور دولت دنیا سب حقیر اور بے وقعت دکھائی دینے لگی تھی۔ آپ کے قلب میں عشق خداوندی جوش مارنے لگا اور قلب تمام دنیاوی آلائشوں سے پاک ہو گیا اور دنیا سے بے پرواہ ہو گیا۔
0 Comments