ہر مسلمان رحمت حق تعالی سے قربت رکھتا ہے
ایک روز اجمیر کے ایک کسان نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی سے فریاد کی۔
میرے کھیت یہاں کے حاکم نے ضبط کر لیئے ہیں اور وہ کہتا ہے کہ جب تک فرمان شاہی پیش نہ کرو گے تمہارے کھیت واپس نہ ملیں گے اور میں امداد کا درخواست گزار ہوں کیونکہ انہی کھیتوں سے میرے معاش کا دارو مدار ہے ۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے کچھ دیر تامل کے بعد فرمایا۔
ہاں میری سفارش سے تیرا کام ہو جائے گا اور اللہ تعالٰی نے تیرے اس کام کے لئے مجھے معمور کر دیا ہے تو میرے ساتھ چل ۔
پھر حضرت خواجہ معین الدین چشتی اس کسان کو لے کر دہلی کی جانب عازم سفر ہوئے اور دہلی آمد سے قبل اپنے جانشین و خلیفہ قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کا کی کو اپنی آمد کے متعلق نہ بتایا حالانکہ اس سے قبل جب بھی آپ دہلی جاتے تو انہیں پہلے اطلاع پہنچا دیا کرتے تھے۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے جب دہلی کے قریب پہنچے تو کسی شخص نے آپ کو پہچان کر حضرت قطب الدین بختیار کا کی کو اطلاع کر دی۔
خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی یہ دہلی تشریف لا رہے ہیں ۔
حضرت قطب الدین بختیار کا کی نے سلطان شمس الدین التمش کو خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی آمد کی اطلاع پہنچائی اور خود استقبال کے لئے چل دیئے۔ سلطان شمس الدین التمش بھی آپ کے استقبال کے لئے آیا ۔ حضرت قطب الدین بختیار کا کی مضطرب تھے کہ مرشد پاک اس مرتبہ بغیر کسی اطلاع کے تشریف لائے ہیں اور اپنی آمد کے بارے میں نہیں بتایا۔ موقع ملتے ہی حضرت قطب الدین بختیار کا کی نے عرض کیا۔
حضور! خادم بارگاہ کو تشریف آوری سے بیشتر ہی اطلاع دہی سے مشرف و ممتاز فرمایا کرتے تھے اس مرتبہ بغیر اطلاع تشریف آوری کی وجہ کیا ہے؟
حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے فرمایا ۔
میں اس غریب کے کام کے لئے آیا ہوں۔
پھر حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے تمام حال حضرت قطب الدین بختیار کا کی کو سنایا ۔
حضرت قطب الدین بختیار کا کی نے عرض کیا۔
حضور! اگر آپ کا خادم بھی بادشاہ سے فرمان عالی کہہ دیتا تو اس کی کیا مجال تھی کی بموجب فرمان عالی اس شخص کی مراد پوری نہ ہوتی آپ نے خود کیوں اس قدر تکلیف گوارا کی؟۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے فرمایا۔
یہ بات درست ہے مگر ہر مسلمان رحمت حق تعالیٰ سے قربت رکھتا ہے۔ اس وقت یہ شخص میرے پاس آیا تو انتہائی ملول اور حزین میں تھا۔ میں نے مراقب ہو کر بارگاہ احدیت میں عرض کیا تو مجھے علم ہوا کہ اس کے رنج و غم میں شریک ہونا بھی عبادت ہے۔ اس وجہ سے میں خود یہاں تک چل کر آیا ۔ اگر میں وہیں سے اس شخص کی سفارش کر دیتا تو اس ثواب سے محروم رہ جاتا جو کہ ہر قدم پر اس کی خوشی سے حاصل ہوا ہے۔
0 Comments